فلک نے بھیجے ہیں کیا جانے کس وسیلے سے
فلک نے بھیجے ہیں کیا جانے کس وسیلے سے
لہو کے بحر میں بھی کچھ صدف ہیں نیلے سے
ابھی تو قافلۂ باد سبز راہ میں ہے
اسی لیے تو ہیں اشجار دشت پیلے سے
جو میرے ساتھ ہے صدیوں سے مثل عکس بہار
خبر نہیں کہ ہے وہ شخص کس قبیلے سے
پڑا ہے کب سے سیہ پوش میرا دشت بدن
چراغ اس میں جلا دے کسی بھی حیلے سے
قیاس کہتا ہے ان کے عقب میں ہے سورج
چمک رہے ہیں افق پر جو زرد ٹیلے سے
ہے لمس آب سے محروم دشت خاک و ہوا
نہ جانے کس لیے ذرات پھر ہیں گیلے سے
رگوں میں آج بھی روشن ہیں سرخ و زرد چراغ
عجیب شے تھے وہ عشرت بدن نشیلے سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.