فنا ہوا کوئی یہاں خطاب کوئی لے گیا
فنا ہوا کوئی یہاں خطاب کوئی لے گیا
عبادتیں کسی کی تھیں ثواب کوئی لے گیا
وفا کے جام کے لئے سجائے ہم نے میکدے
مگر لبوں سے چھین کر شراب کوئی لے گیا
تھی پیار کی فضا مگر زباں کھلی نہ لب ہلے
ستم یہ اس پہ آنکھ سے بھی آب کوئی لے گیا
یہ خوشبوئیں بکھیر کے ملا ہی کیا بہار کو
لرزتی شاخ رہ گئی گلاب کوئی لے گیا
فساد کی حقیقتیں لکھی تھیں جس میں حرف حرف
ورق ورق مسل کے وہ کتاب کوئی لے گیا
سکون اس طرح لٹا دل وفا شعار کا
جو عمر بھر سجائے تھے وہ خواب کوئی لے گیا
فریب پاک دامنی قدم قدم پہ لغزشیں
وہ عامرؔ آج عمر کا حساب کوئی لے گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.