فنا کروں تن خاکی بقائے جاں کے لئے
فنا کروں تن خاکی بقائے جاں کے لئے
اجل نوید ہے آرام جاوداں کے لئے
زباں کی فکر نہیں شرح داستاں کے لئے
نگاہ شوق ہے بیتاب خود بیاں کے لئے
ادھر فراہمیٔ خس میں ہوں میں سرگرداں
تڑپ رہی ہے ادھر برق آشیاں کے لئے
ہے چشم شوق میں اپنی تو آستاں کوئی اور
جھکے ہزار یہ سر سجدۂ بتاں کے لئے
برس رہی ہے وہاں آشیاں پہ ویرانی
پھڑک رہی ہے یہاں روح آشیاں کے لئے
امید و یاس کے جھگڑے سے دل ہوا آزاد
خودی مٹا کے مزے عیش جاوداں کے لئے
کہیں ہے برق ہے صرصر کہیں کہیں صیاد
ہزار خطرے ہیں کمبخت اک آشیاں کے لئے
کھلیں گے پر تو دو عالم نہ ہوں گے پھر کافی
فضائے قدس ہے درکار مرغ جاں کے لئے
بہار ختم ہوئی اب چمن کو کیا دیکھوں
کہ آنکھ ہی نہیں نظارۂ خزاں کے لئے
قفس کے سامنے تنکے ہی رکھ دے او صیاد
نگاہ شوق ترستی ہے آشیاں کے لئے
چڑھا دیا مرے صیاد نے قفس پہ غلاف
تڑپ کے رہ گئے ہم سیر بوستاں کے لئے
بہا فراق میں اے دل یہاں تلک آنسو
رہے نہ بوند کوئی چشم خوں فشاں کے لئے
کہاں یہ کنج قفس اور چمن کی سیر کہاں
پھڑک پھڑک کے ہے مرنا اب آشیاں کے لئے
بٹھا دیا مجھے واماندگی نے کانٹوں میں
زمیں پہ سر کو پٹکتا ہوں کارواں کے لئے
میں صومعہ سے جو نکلا تو میکدے کو چلا
متاع زہد لئے ہدیۂ مغاں کے لئے
منہ اپنا پھیر کے بلبل پہ برق ہنستی ہے
غریب چنتی ہے تنکے جو آشیاں کے لئے
مثال قطرہ فنا بحر عشق میں ہو جا
اگر تڑپ ہے ولیؔ عمر جاوداں کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.