فریب منظر کے استعاروں سے دل جو اپنا لگا رہے ہیں
فریب منظر کے استعاروں سے دل جو اپنا لگا رہے ہیں
وہی دھڑکتے ہوئے دلوں سے نگاہ اپنی چرا رہے ہیں
عجیب سی کشمکش ہے لوگو ضمیر آلودۂ زماں ہے
شریعت عشق کے مسافر یہاں وہاں سر جھکا رہے ہیں
عجب مزاج کرم ہے ان کا گلوں سے اپنی نظر کو پھیرے
نیا ہے انداز باغبانی کہ خار کو گل بنا رہے ہیں
غبار دل جو اڑا ہوا ہے کہیں وہ دامن میں آ نہ جائے
بڑی ادا سے بڑے ہنر سے وہ اپنا دامن بچا رہے ہیں
گلوں سے شاداب زخم دل کا فسانہ کیسے سنائے کوئی
ہر ایک شاخ چمن پہ طائر ترانے خوشیوں کے گا رہے ہیں
کہاں وہ سیلاب وہ سمندر کہاں یہ آتش فشاں سا منظر
ہر ایک طغیانیٔ کرم کو جواز دل ہم بنا رہے ہیں
فسانے دل کے ہیں ختم سارے کہ بزم الفت سمٹ چکی ہے
بس ایک ہم ہیں کہ چشم گریہ لہو سے اپنے بہا رہے ہیں
کہ درد من شد سکون مرشد سنا تھا ہم نے کسی زباں میں
نقوش چہرے کے اپنے مخفیؔ وہی حکایت سنا رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.