فریبی زیست کے نخرے اٹھا کر
فریبی زیست کے نخرے اٹھا کر
تھکن ہونے لگی خود سے نبھا کر
انا میری مجھے جھکنے نہ دے گی
زمانہ تھک گیا ہے آزما کر
کسی بھی طور جو جیتا نہ جائے
اسے تم جیت لینا مسکرا کر
ہزاروں خواب ٹھکرائے ہیں میں نے
تمہارے ہجر میں نیندیں گنوا کر
ذرا سی چوٹ پر رونے سے پہلے
کبھی تو درد دنیا کے گنا کر
غضب منظر تھا پہلے روٹھنا پھر
تمہارا خوب ہنسنا کھلکھلا کر
کسی کو راستے چھلتے رہے ہیں
کسی کو منزلیں لائیں بلا کر
کبھی امداد بھجوانے سے پہلے
ہمارے آنسوؤں سے مشورہ کر
ترے احسان سے دل بھر گیا ہے
کہاں رکھ لوں میں تیرے غم چھپا کر
وہ شاعر تھے مگر میڈل انہیں بھی
ملے ہیں راگ درباری سنا کر
غزل ہوگی روانی میں تبھی جب
لکھو گے درد میرا گنگنا کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.