فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر
فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر
مانوں نہ حشر میں ترے منہ پر کہے بغیر
دیکھو یہ رنگ رخ کا شگوفہ کہ میرا عشق
ظاہر ہوا ہے کہنے سے بڑھ کر کہے بغیر
منہ دیکھتا ہی رہ گیا کہنے کو جب گیا
پلٹا میں حالت دل مضطر کہے بغیر
پکڑو مری زبان تو صورت سے ہوشیار
کھولے گی راز یہ سر محشر کہے بغیر
ہکلا کے آج میں نے کہا اس سے اپنا شوق
تسکین دل ہوئی نہ مکرر کہے بغیر
سننے کو تم کہو تو مرے دل کی ایک بات
برسوں سے پھر رہی ہے زباں پر کہے بغیر
کرتا ہے ہر سوال یہ حجت کی مشق وہ
کوئی جواب ہی نہیں کیوں کر کہے بغیر
معشوق ہی تو کتنا ہی بد تر ہوا اس کا جور
بنتی نہیں ہے بات ہی بہتر کہے بغیر
مانا کہ دل شکن تھیں سر بزم پھبتیاں
لیکن نہ رہ سکا کوئی مجھ پر کہے بغیر
میں یہ سمجھ گیا کہ وہ گھر میں نہیں ہے آج
درباں نے خود ہی کھول دیا دریا کہے بغیر
کیا کیا کہے ہیں شعر حسینوں کے وصف میں
کیا شوقؔ ہو گیا ہے سخنور کہے بغیر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.