فسانہ ہائے شب غم ہے داستاں میری
فسانہ ہائے شب غم ہے داستاں میری
گئی نہ آہ کبھی سوئے آسماں میری
لکھا ہوا تھا مقدر میں جیتے جی مرنا
چھپی ہوئی تھی کہیں مرگ ناگہاں میری
جہاں پہ خون شہیداں تھا قرض مٹی پر
اسی دیار میں ہے گور بے نشاں میری
چراغ شب کی طرح سوز غم کے محشر میں
نہ جانے کیسے گئی عمر رائیگاں میری
مزاج حسن ہے برہمؔ نگار خانے میں
ہوئی ہے طرز تکلم بھی بے زباں میری
تلاش یار میں دیدہ و دل بھی عبرت ہیں
لٹا گئے ہیں کہیں پر متاع جاں میری
وہ شوخ ناز گلابوں سے کھیلنے والے
ہنسی ہنسی میں اڑا لے گئے فغاں میری
صبا نے چھیڑ دئے ساز دل محبت کے
کلی کلی کے لبوں پر ہے داستاں میری
چرا کے لے گئی سارے ہی راز گلشن کے
وہی صبا تھی مقدر میں رازداں میری
الجھ پڑا ہے وہ قاتل بھی بے سبب ہم سے
خدا بچائے کہیں لے نہ لے وہ جاں میری
کوئی نہیں ہے جو اس زندگی کا محور ہو
بھٹک رہی ہے ازل سے کہاں کہاں میری
اٹھا جنازہ تو کہرام مچ گیا برہمؔ
سنبھل کے لے گئے مٹی سی مہرباں میری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.