فصل بہار آئی غنچے کھلے چمن میں
فصل بہار آئی غنچے کھلے چمن میں
بچھڑے ہوئے مسافر پھر آ گئے وطن میں
گھر کر سحاب آیا جام شراب لایا
لے کر رباب آیا مطرب بھی انجمن میں
باد سحر خراماں ہر شاخ گل بداماں
باہم ہیں عہد و پیماں نسرین و نسترن میں
ہر غنچہ تیرا شیدا ہر گل میں تو ہے پیدا
ہے تیری بو ہویدا ہر برگ یاسمن میں
رندوں کو ہوش تیرا مستوں کو جوش تیرا
ہر سو خروش تیرا صحرا میں اور چمن میں
ان کو جفا کی عادت اپنی وفا کی خصلت
وہ چاق اپنے فن میں ہم طاق اپنے فن میں
منظر سکوت غم کا صحرا میں جا کے دیکھو
غنچوں کی مسکراہٹ بے کار ہے چمن میں
ہر ذرے کے لبوں پر ہے اک صدائے مستی
مینا بہ دوش کوئی آتا ہے انجمن میں
کیوں آرزوئیں لائے کیوں رنج و غم اٹھائے
ہم کیوں وطن میں آئے جب کچھ نہیں وطن میں
آزاد تھی تو اس کی پرواز عرش پر تھی
روح رواں مقید کیوں ہو گئی بدن میں
روز ازل سے ہم کو نفرت ہے التجا سے
مطلب کی بات آکر رہ جاتی ہے دہن میں
مسعودؔ ہے یہ افضل ہو مدحت محمد
جب تک زبان تیری قائم رہے دہن میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.