فصل بہار جانے یہ کیا گل کتر گئی
فصل بہار جانے یہ کیا گل کتر گئی
ساغر گلوں کا خون عنادل سے بھر گئی
گلزار ہست و بود میں عارف کی آگہی
اوراق گل پہ صورت شبنم بکھر گئی
حاصل حضور حسن کی سر مستیاں کہاں
تہذیب عصر لوٹ کے جانے کدھر گئی
دانشورو وہ رمز سمجھنے کی چیز تھی
نظر وفا شعار خطا جو بھی کر گئی
خوش بخت غرق بحر تکلف میں ہو گئے
ٹوٹے ہوئے نصیب کی کشتی گزر گئی
گلشن کے دیدہ ور ہی تہ دام آ گئے
جادو جگا کے خوب نسیم سحر گئی
شائستگی نے خیر کا پتلا بنا دیا
برق فنا بھی حسن ادا پہ ٹھہر گئی
الماس و لعل بک گئے مطلق خذف کے مول
اب آبروئے حکمت صاحب ہنر گئی
ساقی کو خاص مسند گل پر جو آئی نیند
سر مستیٔ شراب غم معتبر گئی
اتنی تھی اک نفس کے تبسم کے داستاں
نازک کلی تھی پھول بنی اور بکھر گئی
یوں تو سخن کی صورت معنی تھی دل پذیر
خون جگر سے اور حقیقت نکھر گئی
طے ہو سکے خرد سے نہ ہستی کے مرحلے
ناکامیوں کی آہ مری کام کر گئی
ببیاکؔ بے کسی کے ہے جز کون دست گیر!
موج نفس حیات کی جانے کدھر گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.