فصل گل آئی عجب رنگ ہے میخانے کا
فصل گل آئی عجب رنگ ہے میخانے کا
حسن دیکھے کوئی اب شیشہ کا پیمانے کا
ناصحو فرض ادا ہو چکا سمجھانے کا
چھیڑنا ٹھیک نہیں ہر گھڑی دیوانے کا
کون افتادہ پڑی اے دل بیتاب نئی
کچھ تو معلوم ہو باعث ترے گھبرانے کا
جستجو نے تری اک جا کہیں رہنے نہ دیا
مجھ کو کعبہ ہی کا رکھا نہ صنم خانے کا
خانۂ دل کو غم یار نے آباد کیا
کون پرساں تھا اس اجڑے ہوئے کاشانے کا
دل کو ہو جاتا ہے باور کہ وہ سچ کہتے ہیں
ایسا انداز ہے کچھ ان کے قسم کھانے کا
چپکے پی لیتے ہیں انکار نہیں کرتے ہیں
شیخ جی سنئے ادب ہے یہی میخانے کا
کیا مزے دار تھی الفت کی کہانی میری
سننے والا نہ ملا کوئی اس افسانے کا
منزل عشق یہ ہے خوب سمجھ لے اے دل
آسرا ہے یہاں اپنے کا نہ بیگانے کا
فکر لاحق ہے دم مرگ یہ وحشی کو ترے
جانشیں کس کو کیا جائے گا ویرانے کا
تازگی روح میں چہرے پہ بشاشت آئی
واہ کیا کہنا چھلکتے ہوئے پیمانے کا
روز روشن ہوا دنیا میں اجالا پھیلا
رنگ بدلا نہ مگر میرے سیہ خانے کا
لاگ کی آگ ہی کمبخت بری ہوتی ہے
ایک انجام ہوا شمع کا پروانے کا
جوش وہ بادۂ گلگوں کا وہ قلقل کی صدا
لب تک آنا وہ چھلکتے ہوئے پیمانے کا
ان کی تصویر جنوں خیز کا کچھ ذکر نہیں
نام بدنام زمانے میں ہے دیوانے کا
صبح تک جل چکے جانباز محبت دونوں
شمع کو روئیں کہ ماتم کریں پروانے کا
عمر اتنی تو کٹی بادہ کشی میں عشرتؔ
اب کہاں جائیں گے در چھوڑ کے میخانے کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.