فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے
فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے
اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے
تیری خوشبو سے مرے دل میں کھلے درد کے پھول
سو گئی تھی جو بلا پھر سے جگا دی تو نے
میری آنکھوں میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا
اس خرابے میں یہ کیا شمع جلا دی تو نے
زندگی بھر مجھے جلنے کے لیے چھوڑ دیا
سبز پتوں میں یہ کیا آگ لگا دی تو نے
کوئی صورت بھی رہائی کی نہیں رہنے دی
ایسی دیوار پہ دیوار بنا دی تو نے
میں ترے ہاتھ نہ چوموں تو یہ نا شکری ہے
دولت درد تمنا سے سوا دی تو نے
کبھی کہہ دوں تو زمانہ میرا دشمن ہو جائے
دل کو وہ بات بھی چپ رہ کے بتا دی تو نے
وہ ترے پاس سے چپ چاپ گزر کیسے گیا
دل بے تاب قیامت نہ اٹھا دی تو نے
اسے کہنے کے لیے لفظ کہاں سے آئے
داستان شب غم کیسے سنا دی تو نے
اس کو بھی اس کی نگاہوں میں بہت خوار کیا
اپنی توقیر بھی مٹی میں ملا دی تو نے
کاش واپس تجھے گویائی نہ ملتی شہزادؔ
بول کر آج بہت بات بڑھا دی تو نے
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 578)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.