فصل گل میں مری وحشت کے ہیں ساماں کتنے
فصل گل میں مری وحشت کے ہیں ساماں کتنے
پرزے پرزے نظر آتے ہیں گریباں کتنے
کیا کہوں درد محبت کے ہیں احساں کتنے
آج تم ہو گئے نزدیک رگ جاں کتنے
آج ہنستے ہوئے وہ رخ سے الٹتے ہیں نقاب
آج خطرے میں نظر آتے ہیں ایماں کتنے
اک نشیمن کے لئے پھنک گیا سارا ماحول
نگہ برق کے گلشن پہ ہیں احساں کتنے
ہم گنہ گار گلستاں ہیں ہمیں کیا معلوم
لٹ گئے عین بہاروں میں گلستاں کتنے
خندۂ گل کی قسم گریۂ شبنم کی قسم
موسم گل میں بھی ہیں بے سر و ساماں کتنے
موج در موج تلاطم ہے خدا خیر کرے
اک سفینہ کے لئے اٹھے ہیں طوفاں کتنے
درد دل درد جگر صبح الم شام فراق
ایک افسانے سے پیدا ہوئے عنواں کتنے
مسکرا کر کہیں تم نے مجھے دیکھا تو نہیں
رہ گئے دل میں تڑپتے ہوئے ارماں کتنے
مے کدہ میں نظر آئے جو مجھے پہلے پہل
شیخ صاحب ہوئے حیران و پریشاں کتنے
تو نے آج اے نگہ شوق یہ دیکھا ہی نہیں
ان کی پلکوں پہ ستارے سے ہیں رقصاں کتنے
جادۂ درد محبت میں بھٹک کر اے دوست
اک ترے نام پہ ہیں دست و گریباں کتنے
مجھ سے سیکھے کوئی سجدوں کا سلیقہ ساجدؔ
ہو گئے نقش قدم ان کے نمایاں کتنے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.