فصل جنوں کے باب میں ہم نے جو بھی کہانی لکھی ہے
فصل جنوں کے باب میں ہم نے جو بھی کہانی لکھی ہے
منظر نامہ جیسا بھی ہو بات ہماری اپنی ہے
ارض وطن سے آنے والے دیس کا کچھ احوال سنا
خوف کی چادر اوڑھے بیٹھی قوم کی حالت کیسی ہے
زندہ باد نہ کہنے والے کتنے باغی قتل ہوئے
مہر بلب لوگوں کے گھر کیا سچ مچ روٹی پکتی ہے
کتنے بچوں کا مستقبل طوق اسیری پہنے ہے
کتنے روشن چہروں پر تحریر غلامی لکھی ہے
مرنے والے مارنے والے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں
چوکھٹ چوکھٹ بہنے والے خون کی رنگت کیسی ہے
کیا کوئی دار پہ سجنے والا ان راہوں سے گزرا ہے
شہر کے سارے رستوں پر یہ کیسی گہما گہمی ہے
تہذیبوں کے جنگل میں یہ کیسا مہذب آقا ہے
جس نے ہر انسان کی قیمت صرف اک گولی رکھی ہے
خوابوں کی تعبیر نہ ڈھونڈو تعبیروں سے خواب بنو
ہر دل کو جو چھو کر گزرے یہ وہ کہاوت لگتی ہے
آج ہمیں عاشورؔ کسی نے بے حس قوم کا فرد کہا
لہجہ تلخ تھا لفظ برے تھے بات تو شاید سچی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.