فسردگی نہیں بربادیٔ جہاں سے ہمیں
فسردگی نہیں بربادیٔ جہاں سے ہمیں
اسی زمیں کو بدلنا ہے آسماں سے ہمیں
ملا یہ فیض غم عشق جاوداں سے ہمیں
نجات ہو گئی آخر غم جہاں سے ہمیں
طریق عشق میں رہبر ہوئی ہے گمراہی
ملا ہے بام یقیں زینۂ گماں سے ہمیں
اسی کی خاک سے پھر آشیاں بنا لیں گے
ملال کچھ نہیں تخریب آشیاں سے ہمیں
شکستہ ناؤ کو موجوں میں خود ہی کھینا ہے
نہ ناخدا سے غرض ہے نہ بادباں سے ہمیں
ہماری تیز خرامی کا ساتھ دے نہ سکے
گلہ ہے سستیٔ رفتار ہمرہاں سے ہمیں
تجھی سے بے خودیٔ شوق پوچھتے ہیں بتا
خبر نہیں کہ کہاں لے گئی کہاں سے ہمیں
ہے عشق ہی کے لئے ہم کو عشق کا سودا
غرض نہ سود سے مطلب نہ کچھ زیاں سے ہمیں
جبیں کہیں بھی جھکے دل جھکا ہے اس کی طرف
عجیب ربط ہے اس سنگ آستاں سے ہمیں
سکوں ہے کنج قفس میں نہ آشیاں میں ہے چین
اماں کہیں بھی نہیں برق بے اماں سے ہمیں
جفائے دوست نے اتنا کیا ہے خوگر غم
کہ خوف کچھ نہ رہا جور دشمناں سے ہمیں
ہر ایک حرف محبت پہ بد گمانی ہے
پڑا ہے سابقہ اک یار نکتہ داں سے ہمیں
نہ جانے کس کی تجلی کی منتظر ہے نگاہ
فرار مل نہ سکا جلوۂ بتاں سے ہمیں
گئی بہار تو موسم پہ اختیار تھا کیا
چمن میں جی کو لگانا پڑا خزاں سے ہمیں
بغیر جنبش ابرو ادھر نگاہ اٹھی
قتیل ناز کیا تیر بے کماں سے ہمیں
طلب تھی خم کی ملا صرف ایک جام تہی
معاف پیر مغاں رکھ اس ارمغاں سے ہمیں
ہنوز قافلے میں انتشار باقی ہے
گلہ عبث ہے ولیؔ میر کارواں سے ہمیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.