فضا بھی گروی پڑی بحر و بر بھی گروی ہیں
فضا بھی گروی پڑی بحر و بر بھی گروی ہیں
یہ سر اٹھائیں تو کیسے کہ سر بھی گروی ہیں
ہمارے ہاں جو پڑا ہے ہمارا کچھ بھی نہیں
ہمارے ہاں تو پرندوں کے پر بھی گروی ہیں
ہمارا دعویٰ ہے ہم زندہ قوم ہیں لیکن
ہماری فصلیں زمینیں یہ گھر بھی گروی ہیں
میں اپنی مرضی سے یہ موڑ کاٹتا ہوں کہاں
سفر بھی گروی مرے ہم سفر بھی گروی ہیں
مرے نہیں یہ مجھے چاروں موسموں کی قسم
مرے شجر مرے برگ و ثمر بھی گروی ہیں
مجھے ستاروں کی سرگوشیاں بتاتی ہیں
یہ آسمان یہ شمس و قمر بھی گروی ہیں
کسی کو کھل کے اجازت نہیں ہے کہنے کی
ہمارے شہر کے سب دیدہ ور بھی گروی ہیں
حضور ہم ہیں نئی کھیپ وہ غلاموں کی
پدر بھی گروی پڑے ہیں پسر بھی گروی ہیں
ہمارے شعلہ و شبنم بھی اب ہمارے نہیں
ہمارے سرو سمن کیا شرر بھی گروی ہیں
بطور خاص ہمیں جانور سمجھتا ہے
سو اس کی نظروں میں ہم جانور بھی گروی ہیں
ہمارے عیبوں کی گٹھری تو روز کھولتے ہو
تمہارے پاس ہمارے ہنر بھی گروی ہیں
خوشی غمی کا بھی اظہار کر نہیں سکتے
ہمارے نغمہ گر و نوحہ گر بھی گروی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.