فضائے شہر کو وحشت اثر تسلیم کرتے ہیں
فضائے شہر کو وحشت اثر تسلیم کرتے ہیں
دلوں میں چھپ کے بیٹھا ہے جو ڈر تسلیم کرتے ہیں
ہمارے گھر کی تنہائی پہ پورا حق ہمارا ہے
اسے ہم اپنے آنگن کا شجر تسلیم کرتے ہیں
جو سچ پوچھو تو اب وہ شے نہیں اپنے ٹھکانے پر
یہ ہم ہیں جو اسے اب تک ادھر تسلیم کرتے ہیں
مری شوریدگی مجھ کو کہیں تھمنے نہیں دیتی
بھنور مجھ کو بذات خود بھنور تسلیم کرتے ہیں
ہماری ذات سے سنجیدگی کا خول اترا ہے
یہ تیری دل نوازی کا اثر تسلیم کرتے ہیں
ہم ان مہتاب چہروں کے جلو میں گھومنے والے
تری یادوں کو اپنا ہم سفر تسلیم کرتے ہیں
وبا جو شہر میں پھیلی ہے وہ رکنے نہیں والی
سمجھتے ہیں ہمارے چارہ گر تسلیم کرتے ہیں
کسی انسان سے اپنی طبیعت مل نہیں سکتی
سب اپنے آپ کو فرخ سیر تسلیم کرتے ہیں
تری قدرت کے آگے بس نہیں چلتا کسی شے کا
ترے بندے ترے محتاج در تسلیم کرتے ہیں
عجب ذوق نظارہ دیدۂ پرنم نے بخشا ہے
ضیائے اشک کو آب گہر تسلیم کرتے ہیں
میں اپنی شاعری سے مطمئن ہوتا نہیں یاورؔ
اگرچہ مجھ کو سب اہل ہنر تسلیم کرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.