فضا میں زہر گھولا ہم نے خود اب دم نکلتا ہے
فضا میں زہر گھولا ہم نے خود اب دم نکلتا ہے
اجل کا پیرہن اوڑھے ہر اک موسم نکلتا ہے
بھٹکتے کیوں ہیں مرہم کے لئے ہم دشت و صحرا میں
ہمارے زخم کے اندر ہی سے مرہم نکلتا ہے
ہمارے جسم کے اندر بسے ہیں سیکڑوں عالم
ہر اک عالم کے اندر اک نیا عالم نکلتا ہے
ہماری کامرانی نے کیا سورج کو بھی زخمی
کہ اک سایہ ہمارے جسم سے پر خم نکلتا ہے
ہمارے قلب کے اندر بہت ہی پاک جذبے ہیں
کبھی گنگوتری نکلی کبھی زمزم نکلتا ہے
تبسم سے کسی کا کرب کیا جانے بھلا دنیا
کہ شعلوں کا سمندر بھی پس شبنم نکلتا ہے
یہ دنیا جس کی خاطر بھاگتا پھرتا ہے یہ انساں
تو پھر کیوں بطن مادر سے بہ چشم نم نکلتا ہے
جلایا ہے بہت ہی آتش افکار نے اس کو
کہ آنسو بھی ہماری آنکھوں سے پر نم نکلتا ہے
تڑپ کر آگ اگلتی ہے زمیں اپنے دہانے سے
تو کرتا ابر بھی اب گریہ و ماتم نکلتا ہے
زمانہ کیا بھلا توقیرؔ جانے دوسرے کا غم
اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا دم نکلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.