فکر کا سبزہ ملا جذبات کی کائی ملی
فکر کا سبزہ ملا جذبات کی کائی ملی
ذہن کے تالاب پر کیا نقش آرائی ملی
مطمئن ہوتا کہاں میرا دل جلوت پسند
درمیان شہر بھی جنگل سی تنہائی ملی
دیکھنے میں دور سے وہ کس قدر سادہ لگا
پاس سے دیکھا تو اس میں کتنی گہرائی ملی
ہر دریچہ میرے استقبال کو وا ہو گیا
اجنبی گلیوں میں بھی مجھ کو شناسائی ملی
جب بھی حبس شہر سے نکلے تو ہر اک راہ پر
مہرباں احباب کی مانند پروائی ملی
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوتا سفر کا اختتام
ڈوبتے سورج سے ہر منظر کو رعنائی ملی
رابطوں کی وسعتیں ہرجائی پن سمجھی گئیں
ہم کو اے بیتابؔ شہرت سے بھی رسوائی ملی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.