فکر سوئی ہے سر شام جگا دی جائے
ایک بجھتی سی انگیٹھی کو ہوا دی جائے
کسی جنگل میں اگر ہو تو بجھا دی جائے
کیسے تن من میں لگی آگ دبا دی جائے
تلخی زیست کی شدت کا تقاضہ ہے یہی
ذہن و دل میں جو مسافت ہے گھٹا دی جائے
تیرگی شب کی بسی جائے ہے ہستی میں مری
صبح کو جا کے یہ روداد سنا دی جائے
عشق والوں کی فغاں ضبط فغاں ہوتی ہے
عاشق وقت کو یہ بات بتا دی جائے
خاک صحرا تو بہت دور ہے اے وحشت دل
کیوں نہ ذہنوں پہ جمی گرد اڑا دی جائے
وہ حقیقت جو نگاہوں سے عیاں ہوتی ہے
کیسے آداب کے پردے میں چھپا دی جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.