فراق و وصل تو یک دم تھیں عارضی رسمیں (ردیف .. ے)
فراق و وصل تو یک دم تھیں عارضی رسمیں
ہمیں گناہ نے باندھا ہوا ہے آپس میں
خوشی تھی اتنی تری ریل چھوٹ جانے کی
میں بکس رکھ کے اٹھاتا رہا تری قسمیں
مری تو خیر تھی کمبخت تتلیوں کو بھی
مزہ ہی اور ملا سرخ پھولوں کے رس میں
نظر جو خواب سا چہرہ کوئی سرہانے پڑا
اسے بھی چاٹ گیا میں کتاب کی چس میں
وہ باغ لازمی ہو گا یہ پیڑ بھی ہو گا
پر ایسے پھول تو کھلتے نہیں ہیں اندلس میں
سحر کی پہلی کرن نے قفس میں پر مارے
تو خون دوڑ گیا پتھروں کی نس نس میں
اسی کے پیچھے ہے دنیا کا سب سے دولت مند
جو حسن اک دفعہ دیکھا تھا گشتی سرکس میں
وہ پیسے گنتی ہے تنتی ہے چلتی بنتی ہے
میں سوچتا ہوں کہ کیا کچھ نہیں مرے بس میں
ابھی سکول کی گھنٹی نہیں بجی بابرؔ
میں جھک کے باندھ رہا ہوں متین کے تسمے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.