فتنے جو کئی شکل کرشمات اٹھے ہیں
فتنے جو کئی شکل کرشمات اٹھے ہیں
کچھ دل میں انوکھے سے خیالات اٹھے ہیں
محفل میں وہ جب بہر ملاقات اٹھے ہیں
ہم راز سے کرتے ہوئے کچھ بات اٹھے ہیں
آندھی تو ابھی صحن چمن تک نہیں پہنچی
اک جھونکے سے سوکھے ہوئے کچھ پات اٹھے ہیں
ہر پھر کے وہی سامنے تھا پردۂ اوہام
کہنے ہی کو آنکھوں سے حجابات اٹھے ہیں
من مست ہیں اس طرح رواں نفس کے پیچھے
سر کرنے کو گویا کہ مہمات اٹھے ہیں
اے شیخ نہ یہ کفر نہ فتنہ ہے نہ شر ہے
اک ہم بھی سنانے کو نئی بات اٹھے ہیں
سیرابیٔ جاں دیکھ کہ ہم بزم سے اس کی
آنکھوں میں بسائے ہوئے برسات اٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.