فطرت حسن میں اگر اہلیت وفا نہیں
فطرت حسن میں اگر اہلیت وفا نہیں
مجھ کو خدا سے ہے گلہ آپ سے کچھ گلہ نہیں
نیند میں ہے ابھی کلی پھول ابھی کھلا نہیں
بربطःعشق پر مگر نغمۂ دل چھڑا نہیں
عشق کی ابتدا تو ہے عشق کی انتہا نہیں
عشق ہے وہ بقا سرشت جس کو کبھی فنا نہیں
میری شب فراق کی پوچھ نہ کچھ مصیبتیں
جینا تو بے مزا ہی تھا مرنے میں بھی مزا نہیں
محفلیں جو اجڑ گئیں سج بھی گئیں ہزار بار
میرا جہان آرزو اجڑا تو پھر بسا نہیں
روز وفائیں بھی کروں روز جفائیں بھی سہوں
بندۂ حسن ہوں مگر حسن مرا خدا نہیں
راہ طلب کی مشکلیں اور یہ میری خود روی
چاروں طرف ہوں میں ہی میں کوئی بھی دوسرا نہیں
خود کو مٹا خودی کو چھوڑ قید تعینات توڑ
ایک ہے اصل حسن و عشق کوئی جدا جدا نہیں
عشق میں چاہے جان جائے شکوہ مگر نہ لب پہ آئے
حضرت دل یہ ہائے ہائے عشق کا قاعدہ نہیں
دل ہو خیال یار میں آنکھ ہو انتظار میں
میرے دل فگار میں حسرت ماسوا نہیں
راہ وفا کی ٹھوکریں اور مرا تن فگار
اب بھی یہ امتحان عشق ہو گیا ختم یا نہیں
مانگتا ہوں نگاہ سے تیری گداز سوز برق
مجھ کو بقدر ظرف دل لطف خلش ملا نہیں
ورطۂ زندگی میں موجؔ کیوں ہیں یہ ناامیدیاں
میرا خدا تو ساتھ ہے کیا ہے جو ناخدا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.