فطرت الٹ کے خواب دکھانے دیے گئے
فطرت الٹ کے خواب دکھانے دیے گئے
گونگوں کو بد زبانی کے طعنے دیے گئے
راحت کی پیروی میں تکلف گنوا دیا
آنگن میں غیر لوگ بھی آنے دیے گئے
اندھوں کی بارگاہ میں آنکھیں فضول تھیں
اک سر بریدہ جسم کو شانے دیے گئے
اک ریت کی جبین پہ پتھر کی ٹھوکریں
بے گھر مسافروں کو ٹھکانے دیے گئے
پانی کی مات تشنہ لبوں کو نہ تھی قبول
صد شکر مجھ کو اشک بہانے دیے گئے
یہ آسماں زمین کی نعلین رہ گیا
بدلے میں اس کو تارے اگانے دیے گئے
ہم تیرگی کے ساتھ نمایاں تھے بزم میں
ان کو تو ان کے گھر سے بھی لانے دیے گئے
ہم پیراہن کے تار سے باندھے ہوئے وجود
تسبیح کے مزاج کو دانے دیے گئے
دو لاشے ہی تو گھوڑوں کے پاؤں کا رزق تھے
باقی تو سارے لاشے اٹھانے دیے گئے
کتنے زمانے لمحوں کی غفلت سے مر گئے
ساعت کی بندگی کو زمانے دیے گئے
بجھتے ہوئے چراغ کی تابندہ روشنی
وہ روشنی کہ جس کو چرانے دیے گئے
سجدے مری جبین میں رکھے گئے مگر
آنکھوں میں مجھ کو جسم بسانے دیے گئے
کاظمؔ کسی کے غم کی رفاقت کا شکریہ
مجھ کو بھی کچھ چراغ جلانے دیے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.