فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
خاک سیر ہو کیجے سیر زندگانی یاں
اب تو منہ دکھا اپنا کاش کے تو اے پیری
مل گئی تری خاطر خاک میں جوانی یاں
کیا یہ پیرہن تن کا جوں حباب چمکے تھا
باندھی ہے ہوا میری تو نے ناتوانی یاں
وقت گریہ موزوں ہو کیوں نہ آہ کا مصرع
رفتہ رفتہ اشک اپنا بن گیا فغانی یاں
جان من مجھے ہر دم تیرا پاس خاطر ہے
اس لیے میں کرتا ہوں دم کی پاسبانی یاں
اس کے تیر مژگاں سے ہو گیا جو دل چھلنی
بیشۂ نیستاں کی ہم نے خاک چھانی یاں
گھیر تو نے جامے کا بے طرح بڑھایا ہے
اب زمین ناپے گا دور آسمانی یاں
آگے اس کی قامت کے ایک دن جو اکڑا تھا
خوب سا بنا سیدھا سرو بوستانی یاں
یار کی گلی میں تو جا کے بیٹھ مت رہنا
حال پر مرے رکھنا چشم مہربانی یاں
قاصد سرشک اپنی تجھ سے ہے غرض اتنی
کھائے گر وہاں کھانا پیجو آ کے پانی یاں
خار سے خلش رکھنا اے نصیرؔ بے جا ہے
ہے یہ آبلہ پائی وجہ سر گرانی یاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.