غارت گروں کے پاس ہے کیا اپنے پاس کیا
غارت گروں کے پاس ہے کیا اپنے پاس کیا
ٹھانی ہے صدق دل سے تو خوف و ہراس کیا
لہجہ ہی تلخ ہو تو زباں کی مٹھاس کیا
آنکھیں برہنہ ہوں تو بدن پر لباس کیا
کاسوں میں لے کے شاد ہیں جو زندگی کی بھیک
ان دست بستہ لوگوں کا ہوش و حواس کیا
سبزہ نہیں ہیں فہم و فراست کی چادریں
کل بھی یہی زمین تھی اگتی تھی گھاس کیا
ہاتھوں میں ہاتھ دیجے دہائی نہ دیجیے
تنظیم امن سے ہیں ابھی نا شناس کیا
شہرت نظر میں ہو تو بلاغت سے کیا غرض
سرقے کا غم نہیں تو غم التباس کیا
ہے تالیوں کی گونج میں توقیر حرف غم
ارشاد کرنے والے کریں التماس کیا
اب تو چمن میں کانٹوں کو آئے تو آئے رحم
برگ خزاں رسیدہ کو پھولوں سے آس کیا
صحرا میں بھی ہے آپ کے رخ پر شگفتگی
ہیں یاد پوکھرے وہ اکول و پراس کیا
بزدل ہیں آپ ورنہ سمندر کھنگالتے
موتی بھی چل کے آتا ہے ساحل کے پاس کیا
دریا سے ابر بن کے سب اڑ جائیں نیکیاں
ہے سرفرازؔ یہ بھی قرین قیاس کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.