گئے گزرے دنوں کی یاد کا نشہ ابھی تک ہے
گئے گزرے دنوں کی یاد کا نشہ ابھی تک ہے
میرے پیمانۂ دل میں کوئی صہبا ابھی تک ہے
چھلک پڑتے ہیں آنسو آنکھ سے اک موڑ مڑتے ہی
پرانے گھر کی گلیوں سے مرا رشتہ ابھی تک ہے
اے کوئے یار تو شاید اسے اب بھول بیٹھی ہو
مگر تیرے سبب سے شخص اک رسوا ابھی تک ہے
تصور ہی کی دنیا تھی خیالوں ہی میں رہتے تھے
یقیں سے کم نہیں تھا جو وہی دھوکہ ابھی تک ہے
انہی آنکھوں سے گزرا ہے وہ ہر منظر جو کہتی ہیں
سراسر وہم تھا وہ سب کے جو دیکھا ابھی تک ہے
یہ گھر اس شخص کی محنت کو اب تک خرچ کرتا ہے
جو سالوں پہلے مر کر بھی کہیں زندہ ابھی تک ہے
مسائل کچھ بھی ہوں لیکن مجھے کب فکر تھی کوئی
تھے وہ بھی دن میں کہتا تھا مرا ابا ابھی تک ہے
محبت کی بھلا اس سے بڑی تصدیق کیا ہوگی
مسلمانوں کی بستی میں جو مندر تھا ابھی تک ہے
برا کہتی ہے گر دنیا ہمیں تو مسئلہ کیا ہے
ہمیں تو فکر ہے اس کی کہ جو اچھا ابھی تک ہے
ہجوم دوستاں ہر سو ہے لیکن باوجود اس کے
امرؔ کیا بات ہے آخر جو تو تنہا ابھی تک ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.