گہری کالی آنکھوں والی دین کسی اوتار کی ہے
گہری کالی آنکھوں والی دین کسی اوتار کی ہے
شہر نہیں معلوم مجھے پر لڑکی پھوٹوہار کی ہے
رسموں ریتوں دیواروں کو توڑا بھی جا سکتا تھا
مل بھی سکتے تھے ہم لیکن بات وہی دستار کی ہے
تتلی جیسی رنگ برنگی اڑتی ہے اک آنگن میں
اتنی نازک ہے وہ جیسے کچی کلی کچنار کی ہے
اردو ایسے بولتی ہے وہ جیسے دہلی والی ہو
شعر سناتی ہے غالبؔ کے دیوانی گلزارؔ کی ہے
اس کی پائل کی چھن چھن پر رقص پرندے کرتے ہیں
برکھا رت کے موسم میں وہ گونج کسی ملہار کی ہے
آج بھی میری بستی میں کچھ کوفے والے رہتے ہیں
جلنے والا گھر تھا میرا آگ مگر اغیار کی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.