غیر سے بد گمان ہو جاتے
غیر سے بد گمان ہو جاتے
میری سنتے تو کان ہو جاتے
مہرباں آسمان ہو جاتے
آپ اگر مہربان ہو جاتے
میرے گھر میہمان ہو جاتے
دل میں تم آ کے جان ہو جاتے
جاتے ہم زار اس گلی میں اگر
ذرے بھی آسمان ہو جاتے
پیر فانی کو وقت بادہ کشی
ہم نے دیکھا جوان ہو جاتے
نام میرا جو بزم میں آتا
میرے لاکھوں بیان ہو جاتے
دل تو کہتا ہے لطف وصل یہ تھا
جان من میری جان ہو جاتے
کہتے تیری سی برگ گل بلبل
یہ بھی تیری زبان ہو جاتے
بوسے کیا لے کوئی تصور میں
کہ ہیں رخ پر نشان ہو جاتے
ظلم ڈھاتے جو آتے تربت پر
فرش رہ آسمان ہو جاتے
بادلوں میں جو مے بھری ہوتی
جھک کے اونچی دکان ہو جاتے
شیخ جی مے کدہ وہ جنت ہے
تم بھی جا کر جوان ہو جاتے
پاسباں تو رقیب بن جاتا
ہم ترے پاسبان ہو جاتے
ملتے کم عمر مہ جبیں جو ریاضؔ
ہم ابھی نوجوان ہو جاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.