غیروں کی بستیوں میں رہنے کو آ رہے ہیں
غیروں کی بستیوں میں رہنے کو آ رہے ہیں
اس دل کو چھوڑ کر ہم دنیا بنا رہے ہیں
سکھیاں سہیلیاں وہ گزرا جہاں لڑکپن
بیٹھے بٹھائے اب کیوں سب یاد آ رہے ہیں
روزی کی جستجو میں اپنوں کو چھوڑ چلنا
ماضی کے سارے منظر آنکھوں پہ چھا رہے ہیں
روکا تھا سب نے ہم کو لیکن نہ رک سکے ہم
اب اجنبی زمیں کے دکھ راس آ رہے ہیں
آنکھوں پہ چھا رہی ہے برکھا گئے دنوں کی
گزرے دنوں کے قصے پھر دل جلا رہے ہیں
مٹی کی سوندھی خوشبو پھر یاد آ رہی ہے
ملہار وہ رتوں کے خود کو سنا رہے ہیں
خوشیوں سے خود کو کتنی محروم کر لیا ہے
پردیس میں غزلؔ کیوں ہم رنج اٹھا رہے ہیں
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 414)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.