غیروں سے بھی دھوکے کھائے ہیں اپنوں سے بھی دھوکے کھائے ہیں
غیروں سے بھی دھوکے کھائے ہیں اپنوں سے بھی دھوکے کھائے ہیں
امیر رضا مظہری
MORE BYامیر رضا مظہری
غیروں سے بھی دھوکے کھائے ہیں اپنوں سے بھی دھوکے کھائے ہیں
تب جا کے کہیں اس دنیا کے انداز سمجھ میں آئے ہیں
وہ اپنی جفائے پیہم پر دم بھر بھی اگر شرمائے ہیں
احساس وفاداری کو مرے پہروں پچھتاوے آئے ہیں
ہم میں نہ محبت کی گرمی ہم میں نہ شرافت کی نرمی
انسان کہیں کیوں سب ہم کو ہم چلتے پھرتے سائے ہیں
کچھ پھول گلوں کے ہار بنے کچھ جنس سر بازار بنے
ان پھولوں کی قسمت کیا کہیے شاخوں ہی پہ جو مرجھائے ہیں
صحرائے خرد میں حیراں ہیں کل قافلہ ہائے راہرواں
منہ موڑ لیا ہے سورج نے ہر سمت اندھیرے چھائے ہیں
احسان بہ ہر حالت ہم پر ہے ان کی بدلتی نظروں کا
جینے کے سہارے الفت میں کچھ کھوئے ہیں کچھ پائے ہیں
امید نے پھر کروٹ لی ہے بدلے ہیں فضا کے پھر تیور
اب دیکھیے کیا برساتے ہیں کچھ بادل گھر کر آئے ہیں
ہم دوست نہیں دشمن ہی سہی بھائی نہ سہی بیری ہی سہی
ہمسائے کا حق تو دو ہم کو ہم کچھ بھی نہ ہو ہمسائے ہیں
وہ قدر کریں یا ٹھکرا دیں یہ اہل نظر کی مرضی ہے
انبار سے خار و خس کی رضاؔ کچھ موتی چن کر لائے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.