گلیم و خرقہ عبا و قبا سے لگتے ہیں
گلیم و خرقہ عبا و قبا سے لگتے ہیں
کہ اہل دل بھی اب اہل ریا سے لگتے ہیں
وصال و ہجر کے موسم کچھ ایسے بدلے ہیں
کہ وہ قریب ہیں لیکن جدا سے لگتے ہیں
ڈسے گا ان کو پشیمانیوں کا سانپ ضرور
کہ سب حسین قلوپطرہ سے لگتے ہیں
کسی سے چارہ گری کی امید کیا رکھیے
کہ اب تو تیر سے دل پر دعا سے لگتے ہیں
نظر میں جن کی زمانہ نہیں سماتا تھا
جو تو نہیں ہے تو بے آسرا سے لگتے ہیں
نگاہ دوست نہ جا ان کی سیر چشمی پر
یہ تشنہ لب تو زمانوں کے پیاسے لگتے ہیں
جو طے کرو تو یہ لگتا ہے عمر ساری لگے
وہ فاصلے کہ بظاہر ذرا سے لگتے ہیں
نہ التفات نہ بیگانگی مگر پھر بھی
کچھ اجنبی سے تو کچھ آشنا سے لگتے ہیں
جو دور سے نظر آتے ہیں بے ستوں کی طرح
قریب جا کے جو دیکھو ذرا سے لگتے ہیں
مسافران رہ دل کہیں بھی ہوں سجادؔ
یہ دل گرفتہ بہم آشنا سے لگتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.