غم حیات چراغ سحر میں خاک نہیں
غم حیات چراغ سحر میں خاک نہیں
کہ حسن رات کے پچھلے پہر میں خاک نہیں
پرانے عہد کی قدروں کا مرثیہ لکھیے
بشر کے طور مزاج بشر میں خاک نہیں
اسے ظہور سے پرہیز ہے تو شکوہ کیا
طلب جمال کی ذوق نظر میں خاک نہیں
اسی کے عارض تاباں کے سب کرشمے ہیں
مرے مکان کے دیوار و در میں خاک نہیں
جواب کے لئے پتھرا گئیں مری آنکھیں
شعور نامہ بری نامہ بر میں خاک نہیں
یہ اور بات کہ راس آئی ہم غریبوں کو
خلوص گردش شام و سحر میں خاک نہیں
نواز دے مجھے منزل تو یہ مری تقدیر
کہ زاد راہ تو اب کے سفر میں خاک نہیں
کما کے رکھے ہیں دو چار الٹے سیدھے نقوش
بس اور کچھ مرے دست ہنر میں خاک نہیں
جو کہہ سکو تو اسی کو متاع جاں کہہ لو
شکستہ دل کے سوا میرے گھر میں خاک نہیں
بلندیوں کے تعاون کا خواب کیوں دیکھیں
سکت اڑان کی جب بال و پر میں خاک نہیں
جو مجھ پہ اترا ہے میں اس کی شرح کرتا ہوں
اگرچہ فائدہ ارض ہنر میں خاک نہیں
چلے کسی پہ بھی خنجر مجھے تڑپنا ہے
غلط کہ درد کی لذت جگر میں خاک نہیں
غم حیات سے آزاد ہو گیا ہے رئیسؔ
عجیب بات کہ حیرت خبر میں خاک نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.