غم حیات کا یوں بھی کبھی صلہ مل جائے
غم حیات کا یوں بھی کبھی صلہ مل جائے
تلاش آگ کی ٹھہرے مگر خدا مل جائے
عجیب بات ہے جب اس کو بھولنا چاہوں
وہ ذہن و دل کے دریچوں سے جھانکتا مل جائے
مقابلے میں کھڑے ہیں ہزارہا فرعون
خدا کرے کہ مجھے بھی کوئی عصا مل جائے
عمل ہی ہے مرا ایمان زندگی یارو
کھنگالتا ہوں سمندر نہ جانے کیا مل جائے
مجھے بھی آگ کا دریا عبور کرنا ہے
اٹھا دو آنکھ کہ مجھ کو بھی حوصلہ مل جائے
وہ ریگ زار جہاں پر خرد کے پاؤں جلیں
جنوں ہمارا وہاں بھی برہنہ پا مل جائے
ملے گا جا کے سمندر سے فکر کا دریا
چٹانیں کاٹ رہا ہے کہ راستہ مل جائے
اک ایک در پہ صدا دے رہا ہوں اے مہدیؔ
کوئی تو خوابوں کی بستی میں جاگتا مل جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.