غم کا دریا سوکھ نہ جائے اس کی روانی کم نہ پڑے
غم کا دریا سوکھ نہ جائے اس کی روانی کم نہ پڑے
خون جگر بھی شامل کر لوں آنکھ میں پانی کم نہ پڑے
اس کے بدن کی خوشبو کا کچھ توڑ نکالو آج کی رات
اور کوئی خوشبو لے آؤ رات کی رانی کم نہ پڑے
سال دو سال کی بات نہیں ہے عمر بہت درکار ہے ہاں
سوچ رہا ہوں عشق کی خاطر عہد جوانی کم پڑے
آئینے کا دل نہیں ٹوٹے اس کا بھرم آباد رہے
چہرے پر کچھ اور بڑھاؤ یہ حیرانی کم نہ پڑے
کار جہاں میں اپنی وسعت سے یہ خود حیران سا ہے
آدم زاد کو میرے مولا عالم فانی کم نہ پڑے
درد کے سارے ہی قصوں کی یاد دہانی کر لینا
ہجر کی رات بہت لمبی ہے ایک کہانی کم نہ پڑے
راز بہت سے ایسے بھی ہیں جو اس کو معلوم نہیں
میرے یار کی صحبت تجھ کو دشمن جانی کم نہ پڑے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.