غم کہیں سمت سفر تھی راہبر کوئی نہ تھا
غم کہیں سمت سفر تھی راہبر کوئی نہ تھا
ایک صحرائے الم تھا ہم سفر کوئی نہ تھا
اس کو بھی ہم نے یہی سمجھا تماشا ہے کوئی
جب کھلیں آنکھیں نشان سنگ در کوئی نہ تھا
وقت ہم کو ٹھوکروں پر ٹھوکریں دیتا رہا
اور اپنے ہاتھ میں تیر و تبر کوئی نہ تھا
قریۂ بیداد خواہاں کی شکایت ہے عبث
شہر ہمدرداں میں بھی تو چارہ گر کوئی نہ تھا
دھجیاں اڑتی رہیں جیب و گریباں کی مرے
روک دیتا بزم میں آشفتہ سر کوئی نہ تھا
میرے رازوں میں نہ کوئی راز باقی رہ گیا
ہم نشینوں میں مرے نا معتبر کوئی نہ تھا
اس لئے ہم نرگس بیمار کے قائل ہوئے
اس کے جیسا بھی چمن میں دیدہ ور کوئی نہ تھا
دل کے زخموں کو عطا کرنا تھا لفظوں کا لباس
اور اظہرؔ مقصد عرض ہنر کوئی نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.