غم کی دھوپ اور غم کے شجر بخش دے
غم کی دھوپ اور غم کے شجر بخش دے
مجھ کو مقتل کی سب رہ گزر بخش دے
پھینک کر کوئی پتھر نہ مایوس ہو
دل کی شاخوں میں اتنے ثمر بخش دے
سارے چہرے یہاں آشنا بن گئے
اجنبی شہر کا اب سفر بخش دے
اب چٹانوں میں آبادیاں ڈھل گئیں
مجھ کو تیشہ گری کا ہنر بخش دے
مڑ کے دیکھوں تو پتھر کا بن جاؤں میں
اک صدا ایسی بھی معتبر بخش دے
رت بدلتے رفیق قلم کو مرے
اک مرا اعتبار نظر بخش دے
کام آئیں جو غیروں کے میرے سوا
ان دعاؤں میں میری اثر بخش دے
پیاس ہی پیاس ہے جب مقدر مرا
کربلا کی مجھے دوپہر بخش دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.