غم نہیں ہے چاہے جتنی تیرگی قائم رہے
غم نہیں ہے چاہے جتنی تیرگی قائم رہے
مجھ پہ بس تیری نظر کی چاندنی قائم رہے
اس لئے اوڑھے ہوئے ہوں میں خزاؤں کی ردا
میرے گلشن کی فضا میں تازگی قائم رہے
ہم نشیں اتنا بتا دے کیا کروں تیرے بغیر
کس طرح سانسوں سے عاری زندگی قائم رہے
رنگ الفت کی بقا کے واسطے میرے خدا
عاشقی قائم رہے اور دلبری قائم رہے
کھارے پانی کا سمندر یوں ہوا مجھ کو عطا
عمر بھر ہونٹوں پہ میرے تشنگی قائم رہے
جب حریف جاں ہی دل کی دھڑکنوں میں آ بسے
غیر ممکن ہے کسی سے دوستی قائم رہے
بوئے میناؔ رات کے کھیتوں میں یوں سورج کے بیج
اپنی کوشش ہے جہاں میں روشنی قائم رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.