غم نہیں جو پھول اتنے روز مرجھاتے رہے
غم نہیں جو پھول اتنے روز مرجھاتے رہے
قافلے پھولوں کے گلشن میں نئے آتے رہے
جب تلک اپنے چراغ آرزو جلتے رہے
بے خطر تاریک راہوں پر بھی ہم چلتے رہے
اپنی بربادی کا باعث ہم کسی کو کیا کہیں
اپنے رہزن خود بنے اور خود ہی ہم لٹتے رہے
زندگی کی ظلمتیں بڑھتی رہیں بڑھتی رہیں
سیکڑوں خورشید و ماہ نکلا کیے ڈھلتے رہے
تھے شریک بزم اپنے ماہ و انجم کہکشاں
ہم سکوت باہمی سے گفتگو کرتے رہے
فرق آتا ہے نہیں دیوار کے قد میں ذرا
سائے اس کے خود ہی سمٹے خود ہی وہ بڑھتے رہے
خود سے ہی ہے کانپتا اس دور میں اب ہر کوئی
جس طرح غاروں میں پہلے آدمی ڈرتے رہے
زندگی کی تابناکی دولت و ثروت سے کیوں
چھچھلے دریا روز ہی بڑھتے رہے گھٹتے رہے
علم و دانش کے تنازعے خون کے دریا بنے
آبیاری جہل کے پودوں کی وہ کرتے رہے
کاوشیں تیری یہ سب برق ستم بے کار ہیں
آشیاں جلتے گئے اور آشیاں بنتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.