غم رہا باقی نہ غم کا امتحاں باقی رہا
غم رہا باقی نہ غم کا امتحاں باقی رہا
میرے غم سے عشق کا نام و نشاں باقی رہا
فصل گل کا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا سلوک
بجلیوں کی چھاؤنی میں آشیاں باقی رہا
جب کسی صورت وہ میرا درد دل سنتے نہیں
پھر کہاں لطف زباں لطف بیاں باقی رہا
آخری دم تک محبت میں ہزاروں غم سہے
مجھ پہ لطف زیست کا پھر بھی گماں باقی رہا
تنکا تنکا گلستاں کا ہو گیا صرف خزاں
بجلیوں کی نذر کو اک آشیاں باقی رہا
پھول بنتے ہی کلی کا راز ہستی کھل گیا
چار دن بھی حسن کا پردہ کہاں باقی رہا
رفتہ رفتہ اٹھ گئے سارے حجابات نظر
پردۂ ناز ان کے میرے درمیاں باقی رہا
کتنی دردانگیز ہے اے دوست تاریخ بہار
لٹ گیا سارا چمن اک آشیاں باقی رہا
درد و غم کی چاندنی میں رحم دل ہنسنے لگے
اشک باری میں جو عالم تھا کہاں باقی رہا
رہنما ہیں وہ نہ وہ جادہ نہ وہ رفتار ہے
کارواں کیسا فریب کارواں باقی رہا
بات یہ ساجدؔ زمانے بھر میں ہے مانی ہوئی
میرے ہی سجدوں سے ان کا آستاں باقی رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.