غموں میں بھی مسرت کی فراوانی نہیں جاتی
غموں میں بھی مسرت کی فراوانی نہیں جاتی
ہمارے زخم دل کی خندہ سامانی نہیں جاتی
نہ جانے کون سے عالم میں لے آیا جنوں مجھ کو
کہ منزل سامنے ہے اور پہچانی نہیں جاتی
بظاہر تو چمن میں ہر طرف جشن بہاراں ہے
نہ جانے کیوں گلوں کی چاک دامانی نہیں جاتی
ہماری خیریت وہ پوچھتے رہتے ہیں غیروں سے
خلش درد محبت کی بہ آسانی نہیں جاتی
مہ و خورشید و انجم پر کمندیں ڈالنے والو
سبب کیا ہے کہ ذہنوں کی پریشانی نہیں جاتی
ابھی تک خود غرض ہاتھوں میں ہے نظم چمن شاید
بہار آئی مگر گلشن کی ویرانی نہیں جاتی
ہماری کشتئ امید کے وہ ناخدا ٹھہرے
ابھی تک نبض طوفاں جن سے پہچانی نہیں جاتی
گزر جاتا ہے اک سایہ سا دل کی رہ گذاروں سے
غم ماضی کی اب تک فتنہ سامانی نہیں جاتی
طربؔ شاید وہی منزل ہے سرحد حسن جاناں کی
جہاں سے اور آگے عقل انسانی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.