غنیمت ہے وہ رسماً ہی ملے بیمار ہجراں سے
غنیمت ہے وہ رسماً ہی ملے بیمار ہجراں سے
کہ یہ دستور بھی اب اٹھ رہا ہے بزم امکاں سے
ارادہ ہے کہ ہم جلوؤں کو دیکھیں چشم حیراں سے
تمہارے نام پر ٹکرائیں گے کشتی کو طوفاں سے
مرا دل خون ہو کر بہہ رہا ہے چشم گریاں سے
یہ دھبہ حشر تک اب کیا چھٹے گا ان کے داماں سے
نیاز و ناز کی تصویر کوئی کھینچ لے اس دم
چھڑائیں گے وہ داماں اور میں لپٹوں گا داماں سے
نہ ہونے دی ندامت حشر میں غارت گر دل کو
سنائی داستان درد و غم قسمت کے عنواں سے
دل بیتاب کی آنکھوں میں اک تصویر کھنچ آئی
ابھی اک اشک تھرا کر گرا ہے نوک مژگاں سے
ابھی ان کی نظر میری نظر سے مل کے پلٹی ہے
یہ کس نے دفعتاً اک تیر سا کھینچا رگ جاں سے
کچھ ایسے مطمئن بیٹھے ہیں راہ دوست میں نخشبؔ
کہ جیسے خوب واقف ہوں ہم اپنے دل کے درماں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.