گر اپنے آپ میں انسان بڑھتا جا رہا ہے
گر اپنے آپ میں انسان بڑھتا جا رہا ہے
تو پھر کیوں اس قدر بحران بڑھتا جا رہا ہے
سمٹتا جا رہا ہے دائرہ مالک مکاں کا
مکاں پر قبضۂ مہمان بڑھتا جا رہا ہے
مجھے لگتا ہے صحرا کی طرف جانا پڑے گا
در و دیوار کا احسان بڑھتا جا رہا ہے
بہت دن ہو گئے رویا نہ اپنے حال پہ شہر
دلوں میں خطۂ ویران بڑھتا جا رہا ہے
بہت سا حسن پہلی بار دیکھا ہے کسی نے
تو اس کی ہی طرف حیران بڑھتا جا رہا ہے
بدن خالی کرو اور کشتیٔ جاں کو بچاؤ
خطرناکی کا یہ سامان بڑھتا جا رہا ہے
نمو کرنا سنا ہے جانداروں کی صفت ہے
مگر یہ شہر تو بے جان بڑھتا جا رہا ہے
نہ جانے کتنے بھوکوں کی کفالت ہو رہی ہے
ہوس کاری کا دسترخوان بڑھتا جا رہا ہے
میاں احساسؔ جی کچھ شاعری بھی کرتے رہیے
یہ مانا آپ کا دیوان بڑھتا جا رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.