گرد آلود ہیں اور خوں میں نہائے ہوئے ہیں
گرد آلود ہیں اور خوں میں نہائے ہوئے ہیں
یہ جو طائر ہیں یہ کس شہر سے آئے ہوئے ہیں
راتیں آ آ کے اڑانے لگیں نیندوں کا مذاق
تم نے آنکھوں کو بہت خواب دکھائے ہوئے ہیں
کل جنہیں اپنی کہانی میں کیا تھا شامل
اب وہ کردار مری جان کو آئے ہوئے ہیں
سہمی سہمی سی کھڑی دیکھ رہی ہے دنیا
میری بیباکیاں کچھ راز چھپائے ہوئے ہیں
جو گلابوں کے خریدار تھے اب تو وہ بھی
کیکٹس شان سے گملوں میں لگائے ہوئے ہیں
ضد ہے گرتی ہوئی دیوار بچانے کی ہمیں
اور بادل بھی بہت ٹوٹ کے چھائے ہوئے ہیں
یہ ہی ہوتا ہے محبت میں یہی ہوتا ہے
آپ بے وجہ ہی طوفان اٹھائے ہوئے ہیں
یہ نہ آ جائیں کہیں قحط ادب کی زد میں
ہم نے تہذیب کے کچھ پیڑ لگائے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.