گرد رہ بن کر فقط اک ہم سفر کے ہو گئے
گرد رہ بن کر فقط اک ہم سفر کے ہو گئے
راہیں تھیں لاکھوں مگر اک رہگزر کے ہو گئے
روئیں رونا کس لیے ہم اپنی تنہائی کا اب
اب پشیماں کیا ہوں جب دھوکے نظر کے ہو گئے
ہم نے سوچا تھا رہو گے یوں ہی تم میرے مگر
تم بھی اوروں کی طرح ہی مال و زر کے ہو گئے
گاؤں کی کچی سڑک پھر یاد نہ آئی تمہیں
شہر جا کے تم تو اے ہمدم شہر کے ہو گئے
آخرش تم نے بھی اپنے رنگ دکھلا ہی دئے
جس طرف دنیا ہوئی تم بھی ادھر کے ہو گئے
جس زمیں پر آئے تھے آدم سزا کے طور پر
اس زمیں پر کس قدر نخرے بشر کے ہو گئے
موج دریا سے بھلا اب کیا شکایت ہو مجھے
جبکہ یاں اپنے سفینے بھی بھنور کے ہو گئے
ایک وحدت ہاتھ سے چھوٹی تو دوجی ہاتھ آئی
اک خدا کو چھوڑ کر ہم اک بشر کے ہو گئے
اپنے محسن کے لیے رکھا نہیں دل میں نفاق
راہ کو آنکھوں سے چوما راہبر کے ہو گئے
چلچلاتی دھوپ میں اس زندگی کی اے سہیلؔ
جس سے بھی سایہ ملا ہم اس شجر کے ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.