گرد و غبار یوں بڑھا چہرہ بکھر گیا
گرد و غبار یوں بڑھا چہرہ بکھر گیا
ملبوس تھا میں جس میں لبادہ بکھر گیا
کل رات جگنوؤں کی سمندر پہ بھیڑ تھی
لگتا تھا روشنی کا جزیرہ بکھر گیا
دہشت تھی اس قدر کہ مناظر پگھل گئے
گر کر بدن سے خود مرا سایہ بکھر گیا
منظر میں اور نظر میں تصادم تھا رات بھر
جب بھی اٹھی نگاہیں دریچہ بکھر گیا
جاں سے زیادہ رکھا جسے احتیاط سے
ورثے میں جو ملا تھا وہ تحفہ بکھر گیا
طوفان یاد رفتگاں اتنا شدید تھا
اشکوں سے میری آنکھ کا تارا بکھر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.