گردن میں ہیں وہ باہیں گردش میں ہیں پیمانے
گردن میں ہیں وہ باہیں گردش میں ہیں پیمانے
کیا دین ہے کیا دنیا شاعر کی بلا جانے
کچھ سیکھ سکیں شاید آبادیاں شہروں سے
اے راہروو ٹھہرو کچھ کہتے ہیں ویرانے
مطرب وہ اٹھے پردے ساقی وہ کھلے عقدے
ہاں یوں ہی دمادم دے پیمانوں پہ پیمانے
ہم عشق سے کیا واقف واقف ہیں تو صرف اتنا
آغاز ہلاکت ہے انجام خدا جانے
جو غنچہ و شبنم تھے کل رات کے ہونٹوں پر
اب صبح کے کانوں پر نشتر ہیں وہ افسانے
اے جوشؔ الجھتا ہے کیوں شیخ سبک سر سے
وو عشق کو کیا سمجھے وہ حسن کو کیا جانے
- کتاب : غزل اس نے چھیڑی (Pg. 225)
- Author : فرحت احساس
- مطبع : ریختہ بکس ،بی۔37،سیکٹر۔1،نوئیڈا،اترپردیش۔201301 (2018)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.