گردشوں سے یوں ابھر جانے کو جی چاہتا ہے
گردشوں سے یوں ابھر جانے کو جی چاہتا ہے
شام سے پہلے ہی گھر جانے کو جی چاہتا ہے
تم کو رکھنا ہے رکھو ترک تعلق کا بھرم
میرا وعدے سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
ملک و مذہب کے قوانین تو سر آنکھوں پر
عشق میں حد سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
فرش دنیا پہ میں مدت سے جیا ہوں اب تو
چاند تاروں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
بعد مرنے کے مجھے یاد رکھے یہ دنیا
کام کچھ ایسے بھی کر جانے کو جی چاہتا ہے
زندگی دی ہے اسی نے وہی مارے گا مگر
ان دنوں یوں ہے کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
بن بلاوا میں کبھی نذرؔ نہ جاتا ہوں کہیں
بزم ہے ان کی مگر جانے کو جی چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.