گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک
گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک
چین سے بیٹھیں وہ آہوں میں اثر ہونے تک
ضبط کرتی تھی مری بے خودیٔ شوق کہیں
پہنچا منزل پہ میں سامان سفر ہونے تک
وجہ تسکیں ہے یہ مجھ کو شب تنہائی میں
باتیں کرتا ہوں ترے غم سے سحر ہونے تک
کتنا برباد کرے دیکھیے یہ شوق فروغ
خاک کے ذروں کو ہم رنگ شرر ہونے تک
اب تو آتا ہے مجھے اپنی ہنسی پر رونا
آرزو ہنسنے کی تھی چشم کے تر ہونے تک
کسی پہلو نہیں ملتا شب غم دل کو سکوں
ایک حالت سے تڑپتا ہوں سحر ہونے تک
بسکہ ہے جلوۂ دنیا سبب مرگ نگاہ
چاہیے قطع نظر ذوق نظر ہونے تک
کاش بن جائیں یہ نقطے ورق ہستی کے
اشک غم دامن رنگیں پہ گہر ہونے تک
اب تو ہر ذرہ اک آئینۂ عرفاں ہے مجھے
تھی یہ سب بے خبری اپنی خبر ہونے تک
وہ جفا دوست ہوں ملتی نہیں راحت مجھ کو
وقف تیغ نگہ و تیر نظر ہونے تک
کتنا پرکیف ہے جذبات میں ڈوبا ہونا
کیوں فرشتہ بنوں دنیا میں بشر ہونے تک
ترا دل بھی ہے عجب فکر فراموش جنوںؔ
مٹ گئے رات کے سب رنج سحر ہونے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.