گیا کہ سیل رواں کا بہاؤ ایسا تھا
گیا کہ سیل رواں کا بہاؤ ایسا تھا
وہ ایک خواب جو کاغذ کی ناؤ ایسا تھا
کسی کو بھی نہ تھا آسان سانس کا لینا
مری زمیں پہ ہوا کا دباؤ ایسا تھا
لہو کی دھار سلامت رہی نہ سانس کا تار
مجھے جو کاٹ گیا وہ کٹاؤ ایسا تھا
وہ ٹمٹماتا تو اس کی ضیا بھی کم پڑتی
کسی دیے سے لہو کا لگاؤ ایسا تھا
وہ ایک تھا جو مجھے چار سو دکھائی دیا
میں جنگ ہار گیا ہوں کہ داؤ ایسا تھا
مجھے تو لاج کے اجلے لباس میں وہ بدن
گلاب برف میں جیسے چھپاؤ ایسا تھا
بنے ہیں ناگ مرے بن میں پیڑ جتنے تھے
لگی ہے آگ صبا کا سبھاؤ ایسا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.