غضب ہے مدعی جو ہو وہی پھر مدعا ٹھہرے
غضب ہے مدعی جو ہو وہی پھر مدعا ٹھہرے
جو اپنا دشمن دل ہو وہی دل کی دوا ٹھہرے
وہ چاہیں جس قدر جور و جفا ہم پر کریں لیکن
ہمیں تسلیم لازم ہے کہ پابند رضا ٹھہرے
یہ دنیا اک سرا ہے اس کو آخر چھوڑ جانا ہے
اگر دو چار دن آکر یہاں ٹھہرے تو کیا ٹھہرے
کٹے ہیں سر بہت تیغ جفا سے بے گناہی کے
عجب کیا ہے اگر قاتل کا کوچہ کربلا ٹھہرے
ادھر آنے کو ہیں وہ اور ادھر وقت سفر آیا
عجب مشکل نہ وہ آئیں نہ دم بھر کو قضا ٹھہرے
اسی کو زندگی کا لطف ہے اس دہر فانی میں
کہ جو نزدیک اچھوں کے بھلا اور با خدا ٹھہرے
قیام اپنا ہو اس محنت سرائے دہر میں کیونکر
جہاں آفت ہی آفت ہو وہاں آرامؔ کیا ٹھہرے
- کتاب : غزل اس نے چھیڑی (Pg. 47)
- مطبع : ریختہ بکس بی۔37،سیکٹر۔1،نوئیڈا (2017)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.